دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاحوں سے خوفزدہ میزبان
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ اس ملک کی معیشت کی اگر کوئی تین شعبے کایا کلپ کر سکتے ہیں تو وہ ہیں زراعت، ٹیکسٹائل اور سیاحت کی صنعت۔حالانکہ آج تک کوئی سرکاری سروے ہماری نگاہ سے نہیں گزرا۔پھر بھی گریڈ بائیس کے کسی بھی سیکرٹری سے لے کے کسی بھی سینہ گزٹ کے ایڈیٹر تک سے پوچھو تو حق الیقین کے جذبے سے بتاتا ہے کہ اس ملک میں اگر صرف سیاحت پر ہی کماحقہہ توجہ دی جائے تو کم ازکم دس ارب ڈالر سالانہ کی کمائی تو کہیں نہیں گئی۔
پھر وہ مثال دیتا ہے کہ مصر جیسا ملک جس کے پاس فرعونی ممیوں، اہرام اور دریا نیل کے سوا کچھ نہیں وہ اگر سیاحت سے دس سے پندرہ ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے تو ہمارے پاس اتنے ہی پیسے کمانے کے لیے کیا نہیں ہے؟
موہن جو دڑو، ہڑپا، ٹیکسلا، گندھارا، ننکانہ، لاہور، ملتان، پشاور، ناران، کاغان، نیلم ویلی، سوات، ہنزہ، شندور، چترال، گلیشیرز، ہمالہ، قراقرام، ہندو کش، کے ٹو، نانگاپربت، درجنوں چھوٹے بڑے دریا، سینکڑوں ظاہر اور پوشیدہ جھیلیں، نیلا ساحل، سال کے بارہ ماہ چاروں موسم ایک ساتھ اور ہر ایشیائی مذہب کے مقدس مقامات سمیت آخر کیا نہیں؟
مگر لال بھجکڑ یہ نہیں بتاتے کہ ایک یورپی یا جاپانی سیاح کا پاکستانی کے میدانی سیاحتی مقامات پر تنِ تنہا بلاخوف و خطر جانا آج کے دن میں کتنا آسان ہے؟
اگر وہ لاڑکانہ جانا چاہے تو موہن جو دڑو دیکھنے کے بعد ٹھہرے گا کہاں اور کوئی فلائٹ نہ ہونے کے سبب آئے اور جائے گا کیسے؟ ہڑپا دیکھ تو لے گا مگر ساہیوال میں قیام کہاں کرے گا؟ کیا کوئی ہم زبان گائیڈ اس کو میسر ہوگا؟ کیا وہ آزادی سے بازار میں چل پھر سکے گا؟
اب تو ہم نے ستر سے زائد ممالک کے باشندوں کو آن آرائیول ویزے کی سہولت بھی دے دی ہے۔ پھر بھی پاکستان بیشتر مغربی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کی سیاحتی کمپنیوں کی سرخ یا زرد فہرست میں کیوں ہے؟
بات یہ ہے کہ سیاحت وہ نازک پرندہ ہے جو درگزر کے درخت پر آ کے بیٹھتا ہے۔ سیاح کو قیام، طعام اور بنیادی سماجی و قانونی سیکورٹی چاہیے۔ جب تک اسی پاکستان میں انتہاپسندی اپنی حد میں تھی۔ قانون کی حکمرانی کا شبہہ تھا۔ لوگوں میں اخلاقی روایات کی پاس داری کا خیال تھا۔سماجی قدروں کی توڑ پھوڑ نچلی سطح تک نہیں پہنچی تھی۔ کرپشن ایک قومی کھیل نہیں بنی تھی۔ تب تک میری نسل کے لوگ گواہ ہیں کہ مغربی ہپی نوجوانوں کی ڈاریں افغانستان اور ایران سے ہوتی ہوئی اسی پاکستان کے طول و عرض میں جہاں چاہتیں رک جاتیں۔ آگے بڑھ جاتیں اور پھر بھارت اور نیپال کی طرف کوچ کر جاتیں۔
کراچی، لاہور، پشاور اور پنڈی کے بازاروں میں بھانت بھانت کے گورے گوریاں، جاپانی اور عرب اپنے اپنے من پسند لباس میں گھومتے پھرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ مقامی لوگ انہیں ڈالروں کی مشین کے بجائے مہمان سمجھتے اور میزبانی کے تمام مروجہ آداب کے اندر رہتے ہوئے ان سے لین دین کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی ایشیا کا دروازہ کہلاتا تھا اور چوبیس گھنٹے میں چھیالیس بین الاقوامی ایرلائنز کے طیارے یہاں سے لینڈ اور ٹیک آف کرتے تھے۔
مگر پھر ہم نے اپنے پاؤں پر تنگ نظری، لاقانونیت، خراب گورنننس اور دو نمبر سماجی رویے کی کلہاڑی مار لی۔ ریاست نے بے لگام رویوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی شروع کر دی۔ اور اس کا پھل آج ہم سب میں برابر برابر بٹ رہا ہے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ کیا آپ کسی ایسے ملک کی سیاحت پر جائیں گے جہاں ریاستی ڈھانچہ بھی آپ کے انفردای تحفظ کی ضمانت نہ دے سکے، جہاں کسی بھی وقت دہشت گرد حملہ کہیں بھی ہو سکتا ہو، کسی کو بھی کہیں بھی مجمع گھیر کے کوئی بھی الزام لگا کے زندہ جلا دے یا سنگسار کر دے اور سماج و حکومت شور و غوغا اور معذرت خواہی کے سوا کچھ نہ کر سکیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ ہم سب کے لیے ایک معمول کی زندگی کا حصہ ہو۔ہم خود کو یہ کہہ کر دھوکا دے لیتے ہوں کہ افریقہ اور وسطی امریکا میں اس سے بھی زیادہ لاقانونیت ہے مگر اجنبی سیاح تو رہے ایک طرف خود ہمارے دوست ممالک بھی اپنے باشندوں کو یہاں آنے، رکنے یا کاروبار کا مشورہ دینے پر کیوں آمادہ نہیں؟
حتی کہ پرندے بھی اب یہاں اترتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اب سے پچیس تیس برس پہلے تک سائبیریائی پرندے اکتوبر سے مارچ تک لاکھوں کی تعداد میں ہماری جھیلوں، دلدلوں اور صحراؤں کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ اب وہ بھی ہمارے اوپر سے گزر کے بھارت میں گجرات اور راجستھان میں اترتے ہیں۔ جو پرندے پنجاب اور سندھ میں آتے ہیں ان میں سے آدھے صحیح سلامت واپس نہیں جاتے۔ ظاہر ہے یہ پیغام پرندے بھی اپنی آئندہ نسلوں کو ڈی این اے کے ذریعے منتقل کرتے ہوں گے کہ کون سی جگہ خطرناک ہے اور کون سی محفوظ ہے۔
فرض کریں کہ اس سب کے باوجود اگر سیاح پاکستان آنے لگیں تو وہ کیا دیکھیں گے؟ جن مقامات، پہاڑوں اور جھیلوں پر میں بیس برس قبل گیا تھا، وہاں اب میں زندگی بھر نہیں جا سکتا۔
جھیل سیف الملوک کے کنارے پکوڑے تلے جا رہے ہیں اور اس کے پانی میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں، چاکلیٹ اور چپس کے رپیر اور بچوں کے پاخانے سے بھرے ڈائپرز تیر رہے ہیں۔ جن چشموں اور پہاڑی نالوں کا پانی ہم آنکھ بند کر کے بوتلوں میں بھر لیا کرتے تھے، اب خود وہاں کے باشندے بھی نام نہاد منرل واٹر اور کولّڈ ڈرنکس کی لیٹر بوتل پر شفٹ ہو چکے ہیں۔ ان کی بکریوں اور گائیوں کا دودھ خشک ہو رہا ہے کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دودھ دینا شروع کر دیا ہے۔
بے تحاشا اور کسی بھی قاعدے قانون سے آزاد ہوٹل انڈسٹری نے ان علاقوں کا وہ انوائرنمنٹٹ، معصومیت، اور شفاف آب و ہوا و خوراک آلودہ کر دی ہے جس کی تلاش میں ہم وہاں جا کے ہفتوں مہینوں کے لیے ڈیرے ڈال دیتے تھے۔
مقامی باشندے کو تو سیاحوں کی تعداد میں اضافے اور ہوٹل انڈسٹری کے پھیلاؤ سے خوش ہونا چاہئے مگر سب سے زیادہ اداس وہی ہے کیونکہ اس صنعت سے بااثر لوگ کروڑوں روپے کما رہے ہیں مگر مقامی باشندے اسی انڈسٹری میں پندرہ سے پچیس ہزار روپے ماہانہ کی غلامی کر رہے ہیں اور وہ بھی بارہ ماہ میں صرف چار ماہ کے لیے۔
ہنزہ کے ایک سرکردہ ماحولیاتی کارکن کے بقول ‘پہلے یہاں کم سیاح آتے تھے مگر ہم خوش تھے۔۔اب ہر موسم ِ گرما میں میدانوں سے ایک ٹڈی دل آتا ہے اور اپنے پیچھے کچرا اور بدتمیزی چھوڑ کے چلا جاتا ہے۔ پہلے ہم مارچ سے ستمبر تک کے سیزن کا شدت سے انتظار کرتے تھے، اب ہمیں اس سیزن کا سوچ سوچ کر خوف آتا ہے۔’
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا۔
واپس کریں