دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خورشیدِ ملت جناب خورشید حسن خورشید
خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
کچھ لوگ کی پہچان عہدوں کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن کچھ شخصیات کی وجہ سے عہدے باوقار ہو جاتے ہیں۔آزاد رحکومت ریاست جموں کشمیر کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مجھے بس ایک شخصیت ایسی نظر آتی ہے جس نے جموں کشمیر کی وحدت کا خواب دیکھ کر عملی اقدامات کیے۔ پہلے حکومتی سیٹ اپ کو آزاد کشمیر حکومت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جناب خورشیدِ ملت(المعروف کے-ایچ خورشید) نے اس حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر اس کا نام بھی اسی طرز پر رکھا۔ یعنی (آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر) (Azad Government of the state of Jammu & Kashmir).
آزاد جموں کشمیر کے صدر کو بھی وزارت امورِ کشمیر کے تابع ایک ایلچی کے طور پر دیکھا اور جانا جاتا تھا اور جب بھی جوائنٹ سیکرٹری وزارت امور کشمیر مظفرآباد جاتا تو صدر ریاست اس کے استقبال کیلئے کوہالہ آتا تھا اور شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ اس جوائنٹ سیکرٹری کو مظفر آباد لے جایا جاتا تھا۔ مگر کے ایچ خورشید کے صدر بننے کے بعد سب سے پہلا اقدام یہی کیا گیا کہ صدر ریاست چونکہ ریاست کے وقار کی علامت ہے لہٰذا صدر ریاست جوائنٹ سیکرٹری کے استقبال کیلئے نہیں جائے گا البتہ بحیثیت مہمان اس کی مہمان نوازی اور عزت ضرور کی جائے گی۔
آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کو پوری ریاست کی وارث اور نمائندہ حکومت بنانے کیلئے عملی اقدامات 1962 میں کیے جب کہ پاکستان میں ایوب خان کی حکومت تھی۔ اور اس وقت منظور قادر پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ جن کےساتھ اس بات پر اتفاق ہوا کہ آزاد جموں کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروا کر اسے ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر پیش کیا جائے۔ جس پر اتفاق ہوا اور بین الاقوامی ممالک کے سامنے یہ بات رکھی گئی جس میں چائنہ بھی شامل تھا۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ پاکستان سب سے پہلے آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کو تسلیم کرے گا اور پھر دیگر ممالک سے مل کر اس حکومت کو تسلیم کروایا کروایاجائے گا۔ مگر خورشیدِ ملت کے دور میں ان کے حریف سیاستدانوں نے جعلی ٹیلی گرام بھیج کر یہ سیاسی سازش کی کہ خورشید حسن خورشید ریاست جموں کشمیر کو خود مختار کرنے کی سازش کر رہا ہے اور ایوب خان اور منظور قادر بھی اس سازش میں ملوث ہیں۔ جس کے باعث یہ دیرینہ خواب ادھورا رہ گیا۔
آزاد جموں کشمیر میں (Basic Democracy) کا نظام بھی جناب خورشیدِ ملت نے ہی متعارف کروایا اور صدر ریاست جو کہ پہلے وفاق کی جانب سے سیلیکٹ ہوتا تھا اسے بلاواسطہ عوامی ووٹ سے منتخب کروایا گیا۔ جمہوری نظام کے قیام اور اسمبلی کی تشکیل کیلئے بھی خورشید ملت نے ہی اقدامات کیے۔
قوم کو استصواب رائے کی فراہمی کیلئے اقدامات کیے اور حقِ خودارادیت کے لیے مؤثر آواز بلند کی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاست جموں کشمیر کی وارث صرف اور صرف ریاستی عوام ہے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ بھی صرف ریاستی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ہو گا۔ اس حوالے سےعوامی آگاہی کیلئے اور اور اس مشن کی تکمیل کیلئے انہوں نے جموں کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی۔
لبریشن لیگ نے عام انتخابات میں ہر قسم کی مخالفت اور وفاقی مداخلت کے باوجود 4 نشتوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ مگر اسوقت کے سیاسی حریفوں نے خورشیدِ ملت کو راستے سے ہٹانے کا ہر حربہ استعمال کیا اور اپنے حربوں کو کامیاب بھی ہوئے مگر تاریخی اوراق میں ان کے کارناموں کو حربہ ہی لکھا اور پڑھا جانے لگا۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کے ایچ خورشید ہے کون؟ تو اس سے آگاہی بھی ہماری نسل کیلئے بہت ضروری ہے۔
کے ایچ خورشید 3 جنوری 1924 کو سرینگر میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی کیونکہ ان کے والد صاحب سکول ہیڈ ماسٹر تھے اور گلگت میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے بعد واپس سرینگر گئے اور تعلیم جاری رکھتے ہوئے امر سنگھ کالج سے گریجویشن مکمل کی اور اسی دوران کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور پہلی مرتبہ 1942 میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔
اس کے بعد انہوں نے اورئینٹ پریس سرینگر کے ساتھ بطور صحافی کام شروع کیا اور 1944 میں دوبارہ قائد اعظم کے دورہ سرینگر پر ان کے ساتھ پریس ایجنسی کے نمائندے کے طور پر ایام گزارے۔ ان کی ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں سے متاثر ہو کر قائد اعظم نے انہیں اپنا پرائیویٹ سیکرٹری تعینات کر لیا اور پھر خورشید حسن خورشید قائد اعظم کے ساتھ عملی طور پر تحریک پاکستان میں شامل ہو گئے اور پاکستان بننے تک اپنے جموں کشمیر واپس نہ گئے۔ اکتوبر 1947 میں قائد اعظم کے مشورے پر وہ واپس سرینگر گئے جہاں انہیں بھارتی ایجنسیوں نے گرفتا کر لیا۔
کے ایچ خورشید کے تعارف کیلئے یہ بات ہی کافی ہے کہ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں نے میری بہن نے، میرے پرائیویٹ سیکرٹری اور ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ اور اس وقت کے بڑے بڑے لیڈر بھی قائد اعظم سے ملاقات کیلئے خورشید ملت سے رجوع کیا کرتے تھے۔ وہ باعتماد نوجوان جسے قائد اعظم جیسے لیڈر نے اپنا سیکرٹری بنایا اور تحریک کی ذمہ داریاں سونپیں اس کے قد کاٹھ اور قابلیت کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
کافی وقت گزرنے کے بعد خورشید ملت نے لندن کے مشہور کالج لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کیا اور ان کے ہم عصر دوستوں میں بیرسٹر ذولفقار علی بھٹو بھی تھے جو کہ خورشید صاحب سے لنکنز میں ایک سال سینئیر تھے اور دونوں میں کافی گہرے مراسم اور دوستی بھی تھی۔ اس کے واپس پاکستان آ کر انہوں نےکراچی میں وکالت شروع کی۔ پھر فاطمہ جناح کے کہنے پر لاہور شفٹ ہوئے اور وکالت جاری رکھی۔ کیونکہ وہ آزاد جموں کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف تھے اس لیے کراچی سے لاہور منتقل ہونا ضروری سمجھا۔
جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات میں جناب خورشیدِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ایجنٹ تھے۔
آپ آزاد جموں کشمیر کے پہلے منتخب صدر تھے جو یکم مئی 1559 سے 7 اگست 1964 تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔
وکالت کےساتھ ساتھ انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا اوردیکھتے دیکھتے صدر ریاست کے منصب پر فائز ہو گئے۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ درویش صفت برسٹر/ وکیل/ سیاستدان اور سابق صدر ریاست کے پاس نہ تو اپنا مکان تھا اور نہ ہی اپنی گاڑی۔ میرپور اور بھمبر میں جموں کشمیر لبریشن لیگ کے دوستوں سے ملاقات کی۔ مظفراآباد جانے کا ارادہ تھا مگر اچانک ارادہ بدلا اور واپس لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے تحریکی دوست راجہ بسی خان نے اپنی گاڑی پر بٹھایا کہ میں لاہور چھوڑ آتا ہوں مگر خورشیدِ ملت نے انہیں گجرات ست واپس بھیج دیا اور خود ایک عوامی ویگن پر لاہور کیلئے روانہ ہو گئے۔ 11 مارچ 1988 کا بدقسمت دن تھا جب گوجرانوالہ اور لاہور کے درمیان اچانک ایک ٹریلر نے مخالف سمت سے گاڑی کو ٹکر ماری جو اس جانب تھی جہاں خورشیدِ ملت بیٹھے تھے اور پوری ویگن میں سے صرف ایک ہی وفات ہوئی جوریاستی وقار کی علامت ہمارے محسن اور قائد خورشید صاحب تھے۔ درویشی کی شان یہ تھی کہ ان کی جیب سے صرف 37 روپے برآمد ہوئے جس پر شریف طارق جو کہ خورشید صاحب کے بعد صدر لبریشن لیگ بھی رہے رقمطراز ہیں کہ مجھے اب دکھ ہوا کہ خورشید صاحب نے مظفرآباد جانے کی بجائے اچانک واپس لاہور جانے کا ارادہ کیوں کیا۔ اور خورشید ملت کی خودداری کا عالم یہ تھا کہ پیسے نہ ہونے کا ذکر اپنے قریبی دوستوں سے بھی نہیں کیا۔
خورشید صاحب کو رخصت ہوئے دہائیاں گزر گئیں مگر آپ کا نظریہ اور شخصیت آج بھی زندہ ہیں۔ احمد فراز نےکیا خوب کہا تھا کہ;
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے۔۔
جناب خورشیدِ ملت کے نظریات، افکار اور خواب کی وارث جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ آج بھی اپنے نظریاتی کارکنان کی صورت میں میدان میں موجود ہے اور جناب خورشیدِ ملت کے مشن کو عملی جامہ پہنانے کا خواب لیے سرگرداں ہے۔ جموں کشمیر لبریشن لیگ اس وقت ریاست کی وحدت کی پاسبان سیاسی جماعت ہے جو ہر محاذ پر ریاست کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔
نوجوانان ریاست سے یہی گزارش ہے کہ خورشید ملت کے نظریات کی ترویج کریں اور ان کے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
(تحریر خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ مرکزی سیکرٹری اطلاعات جموں کشمیر لبریشن لیگ)
واپس کریں