مظہرعباس
وجوہات مختلف ہی سہی مگر 8 فروری کے انتخابات اور نتائج کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دو اہم سیاسی رہنماؤں کو ’’سسٹم‘‘ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان، دونوں کی جماعتیں جیت کی دعویدار ہیں مگر جن کے درمیان اصل مقابلہ تھا اس اہم ترین منصب کیلئے، وہ دونوں ہی باہر ہیں، ایک اڈیالہ جیل سے لڑائی لڑ رہا ہے اور دوسرا بیٹی اور بھائی کیلئے دعاگو ہے۔ چوتھی بار وزیراعظم نہ بن سکے تو کیا ہوا۔ لگتا ہے کھیل خاصی باریکی سے کھیلا گیا ہے۔ کامیابی بہرحال بظاہر شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی ہے بس ذرا صدر عارف علوی جانے سے پہلے ’’کچھ شرارتیں‘‘ کر رہے ہیں۔ ’’مائنس 2‘‘ پر بہرکیف عملدرآمد ہو ہی گیا۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں دو ہی مراکز ہیں جہاں دھاندلی ہوتی ہے۔ ’’امتحانی مراکز‘‘ اور ’’انتخابی مراکز‘‘ دونوں میں کئی قدریں مشترک ہیں، مثلاً اسکول یا کالج سینٹر ہوتے ہیں دونوں کی نگرانی ٹیچرز ہی کرتے ہیں۔ دونوں جگہ پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی آوٹ ہوجاتا ہے اور پھر شور شرابہ یا احتجاج کی صورت میں کبھی گریس مارکس دے کر پاس یا منتخب کروا دیا جاتا ہے ورنہ پرچہ یا نتیجہ مائنس، بس فرق ہے تو اتنا کے انتخابات پر زیادہ شور ہوتو خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں جمہوریت کا مضمون نصاب سے ہی باہر نہ کردیا جائے۔ 1977ء تو یاد ہے نا آپ سب کو 11سال انتظار کرنا پڑا جمہوریت کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنےکیلئے۔ اس وقت بھی ہمارے ایک دوست جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم،انٹر کے امتحانات اور8فروری کے انتخابی نتائج، دونوں میں،دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور نتائج منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
بہرحال اس ہفتہ امکان اسی بات کا ظاہر کیا جارہا ہے ’’گریس مارکس‘‘ والی جمہوریت کا سفر شروع ہوجائے گا۔ سندھ میں ماشاء اللہ سید مراد علی شاہ ایک بار پھر وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو الیکشن کے بعد ہونے والی تمام افواہیں دم توڑ گئیں کہ وزیراعلیٰ فریال تالپور ہوں گی یا ناصر شاہ۔ اتنی ساری جماعتوں کا جو اپوزیشن میں ہیں احتجاج بھی واجبی سا رہا، لگتا ہے یہاں ہر جماعت ہی ریٹائر ہوگئی ہے، ’دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا‘۔ البتہ سندھ اسمبلی کا اجلاس کنٹینر کے زیر سایہ ہوا۔
ویسے بھی اس ملک میں جمہوریت ہائبرڈ شکل میں ہی واپس آئی ہے، البتہ جو پرچہ سیٹ کیا گیا تھا اس کو پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز نے اپ سیٹ کردیا، جس وجہ سے اور کچھ ہوا ہے یا نہیں مگر عمران خان کے حامیوں نے اپنے لیڈر کے انتخابی عمل سے باہر ہونے کی صورت میں کمال مہارت سے میاں صاحب کو بھی اس ریس سے باہر کردیا مگر مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف کو اس بات میں دم لگتا ہے کہ کوئی باریک کھیل ہوا ہے، جس پر ایک طرف پی ٹی آئی کا ووٹر بھی خوش ہے کہ اس نے تمام تر مشکل حالات میں بھی اپنی پارٹی کو کامیابی دلائی اور مسلم لیگ ن والے شہباز اور مریم کی جیت کا جشن منا رہے ہیں حالانکہ سارا کھیل تو میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کا تھا ورنہ تو انتخابات نومبر میں ہی ہوجاتے، کم از کم یہ تو بھرم رہتا کہ وقت پر اور آئین کے عین مطابق الیکشن ہوئے۔
اب ایک نئے اور کٹھن سفر کا آغاز ہے۔ جس ملک میں آج کے سب سے موثر میڈیا یعنی ’’ڈیجیٹل میڈیا‘‘ پر غیرعلانیہ پابندی ہو، کئی کروڑ افراد کو اظہار رائے سے روک دیا گیا ہو، وہاں کیسی پارلیمنٹ ، کیسی اسمبلیاں اور کہاں کی جمہوریت۔
آخر8 فروری کو ایسا کیا ہوا کہ مائنس2 ہوگیا۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس نتیجے کا9مئی کو ہی اندازہ ہوگیا تھا اور شاید خود عمران کو بھی، مگر کھیل تو اصل میں بڑے میاں صاحب کے ساتھ ہوا ہے، جس پر شاید اب میاں نوازشریف بوجوہ بول بھی نہ سکیں کیونکہ اس سے بھائی اور بیٹی کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے انہیں آصف زرداری کو بھی قبول کرنا پڑا اور ایم کیو ایم کو بھی۔ ویسے ہمارے کراچی والے بھائیوں کو دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے کہ کس پارٹی کو کہاں لے آئے ہیں۔
8فروری کا پرچہ تو سیٹ تھا، نتیجہ بھی بہت سے لوگوں کو بشمول کچھ ٹی وی ا ینکرز کے پتہ تھا، کئی کا خیال تھا کہ تحریک انصاف شاید بائیکاٹ کرجائے۔ انتخابی نشان نہ ملنے پر مگر صبح8سے شام 5بجے تک نتیجہ ووٹرز کا تھا اور بعد میں سلیکٹڈ کوئی اور ہی ہوگیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے مائنس ہونے کی کہانی اکتوبر2022ء سے شروع ہوگئی تھی، جب انہوں نے ISI کے سربراہ جنرل فیض حمید کی فائل روک لی اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی سفارش پر عملدرآمد کو افغانستان کی صورت حال سے جوڑ کر یہ کہہ دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جنرل فیض کم از کم دسمبر2022ء تک ڈی جی آئی ایس آئی رہیں، اسکےبعد جو کچھ ہوا وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض تنازع کا شاخسانہ ہے جس کا بہرحال نتیجہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی تھی، البتہ اس چکر کا دو لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ،شیخ رشید احمد ’’گیٹ نمبر4والے‘‘ اور چوہدری پرویز الٰہی، کپتان بھی غصہ میں کچھ زیادہ ہی آگیا۔ چلا گیا اور دو بڑی غلطیاں کرگیا، قومی اسمبلی سے استعفیٰ اور پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا۔ سیاسی طور پر میں آج بھی اور اس وقت سے یہ کہہ بھی رہا ہوں اور لکھ بھی رہا ہوں کہ عدم اعتماد کی تحریک سیاسی غلطی تھی۔ اب میاں صاحب مری جاکر ٹھنڈے موسم میں غور کریں کہ وہ عمران کو بٹھانے، نااہل کروانے اور سزا دلوانے میں تو کامیاب ہوئے مگر خود ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست سے مائنس کرنے کی کہانی نئی نہیں ہے۔ بس فرق ہے تو اتنا جس کو فارغ کیا گیا ہے، اسکی جماعت کے لوگ بہرحال اسمبلیوں تک پہنچ گئے ہیں اور انکے حمایت یافتہ صدر عارف علوی (B) 58-2 کے بغیر بھی جس حد تک اپنی پارٹی کیلئے کرسکتے ہیں کریں گے، کیونکہ بہرحال انہوں نے ایوان صدر کے بعد بنی گالہ اور اڈیالہ کا ہی چکر لگانا ہے۔ ہم ایک ’’بند گلی‘‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ویسے گریس مارکس دے کر جس طرح ہم اس نظام کو آگے بڑھا رہے ہیں اس سے ایک ریٹائرڈ نظام یا یوں کہوں کہ ہائبرڈ پلس تو آگے بڑھ رہا ہے سیاسی جماعتیں اپنی اسپیس ختم کرتی جارہی ہیں اور یوں ملک میں جمہوریت کمزور سے کمزور تک ہوتی جارہی ہے۔ کسی کو نااہل کرکے سسٹم سے باہر کردیا جاتا ہے تو کوئی ا ہل ہوکر بھی کم از کم وزیراعظم کی ریس سے باہر ہوجاتا ہے۔
جاہل کو اگر جیل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مہ خانہ کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
واپس کریں