یاسر جواد
ابھی دو تین عشرے پہلے کی بات ہے جب ریاست برائے نام کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں رکھتی تھی: کہیں کہیں تعلیمی سہولیات، کچھ علاج کے ڈھکوسلے، کچھ تحفظ کے جھانسے، آئین کی پاس داری کے کچھ دعوے، جوابدہی کے سراب، ٹرانسپورٹ کے کچھ نمونے، وغیرہ۔
لیکن اب یہ سب کچھ آپ کے سپرد کر چکی ہے۔ حتیٰ کہ خود ملی ترانوں کے ذریعے قوم پرستی کے ٹیکے بھی نہیں لگاتی۔ اب آپ گروہ بازی اور جتھے بندی کر کے اپنے اپنے لیڈروں کے ذریعے یہ کام خود کرتے ہیں۔ قومی ترانوں کی بجائے پارٹی کے ترانے اہم بن چکے ہیں۔
اب ریاست کہتی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچ آپ نے خود اٹھانا ہے بلکہ فیس پر ٹیکس بھی دینا ہے، اگر استطاعت ہے تو اپنی بجلی بھی خود تیار کرنی ہے آٹھ دس لاکھ روپے کے سولر پینل لگوا کر، ٹرانسپورٹ اور علاج بھی آپ کی اپنی ذمہ داری بن گئی ہے۔ سڑکیں ٹیکسوں سے بنیں گی لیکن آپ ساری عمر ایف ڈبلیو او کو ٹال ٹیکس دیتے رہیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی نیا ’’معاہدۂ عمرانی‘‘ ہے۔ عمران خان بے مقصد نہیں پیدا ہوا۔
اگر آپ غصے میں آ کر ٹیکس نہیں دیں گے تو وہ آپ کو جیل میں ڈال کر ہیرو بنانے کی بجائے الیکٹرانک ذرائع سے آپ کی بولتی بند کریں گے۔ ان ٹیکسوں کے بدلے میں آپ کو صرف بوسیدہ نصاب، جہالت، منظم مُلّاسندھی ٹوپی، سرائیکی اجرک، پنجابی دھوتی ملے گی۔
لیکن یہ مت سمجھیں کہ ریاست تحلیل یا کمزور ہو چکی ہے۔ اِس کے قیام کے مقاصد بہت اچھے طریقے سے پورے ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کو ریاست کی طاقت اور موجودگی پر کوئی شک ہے تو اور آپ ریاست کو اپنی شہ رگ سے بھی قریب محسوس کرنا چاہتے ہیں تو کسی بیرک کے دروازے کے آگے بائیک کھڑا کر دیں، کسی روٹ والی گاڑی کے آگے آ جائیں یا کسی سرکاری افسر کے دفتر میں بلااجازت گھسنے کی کوشش کر کے دیکھیں۔ ریاست آپ کے ہر جانب اور ہر سوراخ میں موجود ہو گی۔
واپس کریں
یاسر جواد کے دیگرکالم اور مضامین