انجینئر امان خان
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خشک سالی اور پانی کی قلت ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ سے فطرت اور انسانی تجربے کا حصہ رہی ہے، تاہم بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور انسانی سرگرمیوں اور پانی کے استعمال میں غیر ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آب و ہوا میں نمایاں تبدیلی نے اس رجحان کو مزید تیز کردیا ہے۔
خشک سالی خاص طور پر اس وقت بڑھتی ہے جب ملک بنیادی طور پر بنجر ہو۔
اس کے علاوہ پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1951 میں 5060 کیوبک میٹر سالانہ تھی جو اب صرف 908 کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کا کہنا ہے کہ اگر آج کوئی فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو پاکستان کو 2025 تک خشک سالی کا سامنا ہوگا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے پہلے ہی پانی کی قلت والے علاقوں میں بڑھتی ہوئی گرمی اور پانی کی کمی سے مویشی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ڈیلٹا سنہ 1833 میں 13 ہزار مربع کلومیٹر سے 92 فیصد سکڑ کر صرف ایک ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔اقوام متحدہ اور وزارت آب و ہوا کے زیر قیادت نیا لیونگ انڈس اقدام اس وقت جاری ہے اور سندھ طاس کی صحت کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان نے صحرا بندی، زرخیزی میں کمی اور خشک سالی جیسے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے ’فطرت پر مبنی حل‘ کے تحت ماحولیاتی نظام کی بحالی کا اقدام بھی شروع کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صحرا بندی اور خشک سالی کے اس عالمی دن پر ہمیں متحرک ہونے کی ضرورت ہے، خشک سالی کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے اور اس سے بچنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی ہنگامی صورتحال کے فرنٹ لائن پر ہیں۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم خشک سالی کو ہونے سے نہیں روک سکتے، لیکن ہم اپنے پانی کو محفوظ رکھ کر ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاری کر سکتے ہیں۔
واپس کریں
انجینئر امان خان کے دیگرکالم اور مضامین