شاہد اقبال حاجی زئی
ڈی سی صاب( چارسدہ ) گزارش ہے کہ جہاں اپ نے چارسدہ کی اتنی خدمت کی ھے وھاں ایک دو خدمتیں اور بھی کیجئے ۔تحصیل سطح پر شبقدر میں عوام کیلئے بیسک انگریزی کلاسز کا اھتمام کیجئے لوگ انگریزی سممجھ اور بول سکیں گے تو اے سی شبقدر کے ساتھ بات کرپایئں گے بات ھوگی تو مسائل حل ھونگے ۔ کیونکہ اے سی صاب انگریزی میں بات کرنے کے علاوہ کسی اور باشا میں بات نیہں کرتے۔کچھ گن مینوں کا بھی اگر اھتمام ھوجائے تو عوام کی قسمت کھل جاے کیونکہ جناب اے سی صاب پورے رمضان میں چار دن سے زیادہ اپنے دانش کدہ سے رونق افروز نیہں ھوئے جبکہ رونا اس بات کا روتے ھیں کہ باھر حالات خراب ھیں ، سر جی ! عوام بھی تو اس دھشت زدہ ماحول میں روزی کمار ھے ھیں۔
جناب ڈی سی صاب !
آپ تو دوراندیش ھیں اس مہنگائی میں غریب روٹی کیلئے ترستا ھے بھلا اس کا گوشت سے کیا علاقہ ؟ لیکن رمضان ھے یار دوست کا دل تو چاھے گا کہ کچھ زبان کا زائقہ ھی بدلنے اک کلو گوشت خریدنے کی جرات کرلیں لیکن امید پہ اوس تب پڑتی ھے جب شبقدر بازار میں گوشت سرکاری ریٹ سے دو سو دس روپے مہنگا پہ فروخت ھوتا دیکھتے ھیں ۔
سرجی !
یہ گوشت کی تو صرف مثال دی ھے سبزی اور کریانہ کا بھی یہی حال ھے ۔کبھی حضرت عمر ( رض ) کی سنت ادا کرلیں اور بھیس بدل کر شبقدر بازار میں گھوم ایئں تو اپ کو معلوم پڑ جائیگا کہ اے سی صاب کبھی نکلتے نیہں ھیں ورنہ تو لوکل انتظامیہ اور شاید بعض صحافی نما صحافی بھی اپ کو “ سب اچھا “ کی رپورٹ دے ھی دیں گے ۔
ایک عنایت اور بھی کیجئے ، ایک چھوٹا سا فنڈ • سرکاری یتیم “ کے نام پہ بھی قائیم کئجئے کیونکہ شبقدر میں کچھ سرکاری اھلکاروں کی عموما اور ایک گرداور اور دو چار پٹواریوں کی خصوصا ، سر سے ایک ایم پی اے صاب کا سایہ اٹھ گیا ھے یہ بیچارے مذکورہ ایم پی اے کے حجرہ کے جملہ اخراجات اٹھاتے رھے ھیں تاکہ ان کو کوئی شبقدر سے ھلا نہ پایئں اللہ کی رضا سے اب یہ یتیم ھوگئے ھیں ۔۔۔ بس سر جی ! اس فنڈ سے ان کا کچھ بھلا ھو جائیگا ۔
جناب ڈی سی صاب
اتنے کام کرلیں تو ایک ٹینٹ ( تمبو ) کا بھی بندوبست کرلیں جو اوچہ ولہ سٹاپ یا بائی پاس پہ لگایا جاسکے تاکہ ٹریفک پولیس وھاں ارام سے بیٹھ سکیں اور مہمند کیطرف سے بائی پاس کے زریعے انے والے پتھروں کے ٹرکوں سے جب ایک ھزار فی ٹرک رشوت لے رھیں ھوں تو کم از کم ان کیلئے سایہ کا تو خاطر خواہ بندوبست ھو ۔ کوئی بات نیہں سر جی ! اگر مین چوک پہ ٹریفک کا ستیا ناس ھو ۔
ویسے اگر اپ کے پاس کبھی فرصت ھو تو ایک قصہ اور بھی سنا دوں گا کہ کس طرح ایک فلائینگ کوچ شبقدر سے پنڈی جاتی ھے ، کا سرکاری تین سو روپے فی فلائینگ کوچ اڈہ ٹیکس ھے لیکن اللہ کے یہ پراسرار بندے ان سے بارہ سو روپے لیتے ھیں
سر جی ! مہمند سے یاد ایا ، مہمند ڈیم کیلئے جب سیمنٹ جاتا ھے تو یار دوست چال بازی سے سیمنٹ کا ٹریلہ وھاں پورا خالی نیہں کرتے بلکہ بیس تیس بوریاں چپکے سے واپس بھی لے اتے ھیں اور نئے تعمیر شدہ فلائینگ کوچ اڈہ میں Unload ھوتا ھے ( وڈیو موجود است )اب اللہ جانے یہ کونسا دم پھونکتے ھیں کہ انتظامیہ کو یہ نظر ھی نیہں ارھا ۔
سر جی !
ایک راھنمائی بھی مقصود ھے یہ تجاوزات بھی بڑہ گئی ھے بلکہ دو طرح سے بڑھ گئی ھیں ایک زمینی تجاوزات اور ایک اسمانی تجاوزات ۔۔۔۔۔ زمینی تجاوزات میں وہ چھابڑی فروش پیش پیش ھیں جو فٹ پاتھوں پہ دکان سجاھوئے ھیں اور ھر روز ٹی ایم اے کے اھلکار اتے ھیں اور عید سے پہلے ان سے عیدی لیتے ھیں اس بہتی گنگا میں صرف لوکل انتظامیہ ھاتھ نیہں دھو رھی بلکہ مقامی دکاندار بھی عجب کھیل کھیلتے ھیں اپنی دکان کے سامنے سرکاری فٹ پاتھ پر چھابڑی فروش بیٹھاتے ھیں یا ففٹی ففٹی کاروبار یا پچاس ھزار ماھانہ پہ ڈیل ھوتی ھے۔۔خیر ھے صاب ! میں ان کے بارے میں زیادہ نیہں کہوں گا کیونکہ مجھے نیہں پتہ کہ ان کی شکایت کہاں لگانی ھے ، بس اپ راھنمائی فرما دیں البتہ چینچی والے بھائیوں سے جگہ جگہ غیر قانونی اڈہ ٹیکس جسکو ٹی ایم اے روا سمجھتی ھے بٹورتی ھے ۔
جناب ڈی سی صاحب !
بہت کھیل تماشے ھو رھے ھیں اپ کے تو بھی سورسز ھونگی زرا اپ بھی اپنے زرائع متحرک کر کے دیکھ لیں ۔
ضلعی سطح پر اپ عمر فاروق ( رض ) جیسے مسند پہ ھیں رعایا اپ سے شفقت کی توقع رکھتی ھے “ سب اچھا ھے “ کی رپورٹ پہ نہ جایئں ۔
واپس کریں
شاہد اقبال حاجی زئی کے دیگرکالم اور مضامین