دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سراج الدولہ اور کمانڈر میر جعفر کی دلچسپ کہانی
عمران زاہد
عمران زاہد
بنگال کے سراج الدولہ اور اس کی فوج کے ایک کمانڈر میر جعفر کا نام سب نے سنا ہے۔ مطالعہ پاکستان میں جنگ پلاسی میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ان کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ جس نے تفصیل سے سننی یا دیکھنی ہو وہ یوٹیوب پہ "سنو دیکھو جانو" پر فیصل وڑائچ سے سن سکتا ہے۔

میں مختصر الفاظ میں وہ کہانی بیان کروں گا۔ آپ کو اس میں آجکل کے حالات کا عکس بھی نظر آئے گا۔

سراج الدولہ نے اپنے نانا علی وردی خان سے بنگال کی حکمرانی پائی تھی۔ وہ بنگال کا ایک جائز حکمران تھا۔ میر جعفر اس کا ایک کمانڈر تھا جو اس کے روئیے سے نالاں تھا۔ اس نے اس وقت کی ایک نمایاں طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی، جن کا کولکتہ میں اپنا گورنر تھا، کئی قلعے تھے اور تربیت یافتہ فوج تھی، سے سازباز کی۔ ایک سازش کر کے جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کو شکست دی اور بعدازاں اسے قتل کر کے بنگال میں ایک ہائبرڈ رجیم قائم کی جس میں میرجعفر کی حیثیت ایک کٹھ پتلی حکمران کی تھی جس کی ڈوریاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو کے ہاتھ میں تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے تخت پر بٹھانے کے عوض بھاری تاوان، خرچ جنگ، جاگیریں اور بیش بہا تجارتی رعایات حاصل کیں۔ کہتے ہیں کہ لارڈ کلائیو کو جو ذاتی رقم ملی تھی، اس سے وہ برطانیہ کا امیر ترین فرد بن گیا تھا۔

جنگ پلاسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک فکسڈ میچ تھا۔ اس میں لارڈ کلائیو اور میر جعفر نے ساری مووز پہلے سے ہی طے کر لی تھیں۔ سراج الدولہ کو ہانکا کر کے گھیرے میں لا کر مارا گیا۔ سراج الدولہ سادگی اور اعتبار میں مارا گیا وگرنہ کوئی ایسی وجہ نہ تھی کہ سراج الدولہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر فتح حاصل نہ کرتا۔ سراج الدولہ کا لشکر پچاس ہزار سے زیادہ تھا جبکہ لارڈ کلائیو کے پاس محض چار ہزار کا لشکر تھا۔

میرجعفر کو نشے کا مرض لاحق تھا۔ ہر وقت افیون کے نشے میں دھت پڑا رہتا تھا یا خوبصورت خواتین کے جھرمت میں مدمست رہا کرتا تھا۔ اس کی شاید واحد خواہش یہ تھی کہ کسی طرح ملک کا حکمران بن جائے ۔۔۔ سازش اور غداری کے نتیجے میں وہ ملک کا حکمران تو بن گیا لیکن ملک کے انتظام و انصرام سے اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ جس کے نتیجے میں ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہوتی گئی۔ ملک کی صورتحال جب بہت زیادہ خراب ہوئی تو اس کے سلیکٹرز (یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی) نے اسے ہٹا کر ایک دوسرے شخص میرقاسم کو بنگال کا نواب تعینات کر دیا۔ میر قاسم ایک بہتر حکمران ثابت ہوا۔ اس نے معاشی اصلاحات کی کوشش کی۔ ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح کی۔ میر قاسم تجارتی پالیسی میں بھی اصلاح کا خواہاں تھا اور چاہتا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو جو ٹیکسوں میں ناواجب رعایتیں ملی ہوئی ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ اس کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے شدید اختلاف ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھرپور مزاحمت کی۔ میر قاسم نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ کا فیصلہ کر لیا۔ اس مقصد کے لئے اودھ کے شاہ شجاع دولہ اور مغل بادشاہ شاہ عالم دوئم کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور جنگ کی ابتداء کی۔ بدقسمتی سے ابتدائی کامیابیوں کے بعد انہیں بکسر کی جنگ میں شکست ہوئی۔

اس جنگ سے قبل انگریزوں نے ایک چال چلی اور میر جعفر،جسے افیون کے نشے کی لت تھی، کی نوابی میں ایک دفعہ پھر سے متوازی ہائبرڈ رجیم قائم کر دی۔ وہ زیادہ عرصہ حکمرانی پر قائم نہ رہ سکا اور محض دو سال میں ہی راہی ملکِ عدم ہوا۔

سراج الدولہ کے قتل کے بیس سال کے اندر اندر اس کے ساتھ سازش کرنے والے سارے کردار ذلیل و رسوا ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ میرقاسم کا بڑھاپا بھیک مانگتے گزرا۔ میر جعفر کو غدار کا خطاب ملا اور نشے کے عالم میں اس جہاں سے رخصت ہوا۔ لارڈ کلائیو پر برطانیہ میں بدعنوانی کے بہت سے مقدمات چلے۔ ڈپریشن بھری زندگی سے تنگ آ کر اس نے خودکشی کر لی۔
کاش کوئی ان کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔

چند سال قبل بھی ایسا ہی ایک کھیل کھیلا گیا تھا۔ تب کے آئینی و دستوری حکمران کو سازش کر کے نااہل کیا گیا اور پولیٹیکل انجینرنگ کر کے اسے انتخابات سے باہر رکھا گیا تھا۔ بالکل جنگ پلاسی کا منظر تھا جس میں ہانکا کر کے اسے گھیر کر شکار کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور ایک ادنیٰ سیاستدان نے گٹھ جوڑ کیا تھا۔ دستوری حکمران کو فارغ کر کے اس کی جگہ تب کے سلیکٹرز نے اپنی کٹھ پتلی کو تخت پر بٹھایا تھا، جو میر جعفر والے سارے شوق بھی رکھتا تھا۔ اس میں مزید مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں جیسے کہ اس نے میرجعفر کیطرح ملک کی اکانومی کا بھٹہ بٹھا دیا تھا۔ بالاخر چار سال کی مسلسل ذلت کے بعد اس کے اپنے سلیکٹرز نے اس پر سے ہاتھ ہٹا لیا تھا جس کی وجہ وہ اقتدار سے باہر ہو گیا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
واپس کریں