صدید بودلہ
تیاری مکمل تھی، مشکل (بلکہ نا ممکن ٹائپ) بجٹ سے بچنے کے لئے شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں کے دباو پر اگلے ہفتے قومی اسمبلی توڑ کر الیکشن کا اعلان کرنا تھا۔ حفیظ شیخ کا نام بطور نگران وزیر اعظم فائنل تھا جو پنڈی، عمران اور پیپلز پارٹی کو بھی قبول ہونا تھا۔ مگر لندن میں اس متوقع ڈرامائی اعلان سے پہلے ہی زرداری نے ایک ایمرجنسی پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ چند دن قبل لندن میں بلاول اور نواز کے درمیان طے شدہ مشترکہ فیصلے کے مطابق پہلے انتخابی اور نیب قوانین میں ترامیم ہوں گی، پھر اکتوبر میں باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے دو ہفتے پہلے الیکشن ہوں گے۔ زرداری کے کہنے پر نواز نے کابینہ والوں کو ارجنٹلی لندن بلا کر ان کے پریشر سے شہباز کی جان چھڑائی ہے۔
گیم سمپل ہے - زرداری اور نواز big picture کی سیاست کر رہے ہیں اور عمران اور شہباز small detail کی سیاست۔ زرداری اور نواز کو معلوم ہے کہ ان کا الیکشن سے پہلے کا سیاسی اتحاد (انتخابی اتحاد نہیں) الیکشن کے بعد ان کو مخلوط حکومت بنانے میں مدد دے گا کیونکہ نہ نون لیگ، نہ پی ٹی آئی اور نہ پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت ملے گی۔ اور ان تین میں سے جو کوئی بھی دو ایک طرف ہوں گے وفاق میں حکومت بنائیں گے۔ نواز کو معلوم ہے کہ عمران اور زرداری تو پھر بھی اگلی حکومت میں ساتھ بیٹھ سکتے ہیں مگر نون اور پی ٹی آئی نہیں!
زرداری اور نواز آج اور ابھی کے چھوٹے فائدے کے بجائے کل اور طویل معیادی فائدے کے متمنی ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اصل مسئلہ عمران خان کو tackle کرنا نہیں بلکہ فوج کو مینیج کرنا ہے۔ اور یہی دانشمندی ہے۔ زرداری اور نواز اقتدار اپنے بچوں کے پاکستان کے لئے مینیج کرنا چاہتے ہیں، عمران اور شہباز کی طرح اپنے لئے نہیں!
واپس کریں
صدید بودلہ کے دیگرکالم اور مضامین