محمد صفان صفدر
سارے پاکستانی ترک ڈراموں کی تاریخ کو اصل تاریخ سمجھ کر دیوانے ہوئے پھرتے جسکے متعلق خود بوزداگ خود کہہ چکا ہے کہہ 80% افسانوی کردار(جن بامسی بے کا مشہور کردار بھی شامل ہے) اور تاریخ ہیں اور باقی جو 20% ہے وہ بھی یورپین کلیساؤں کی لائبریریوں سے لیا ہے ہر کردار کیلئے الگ رائٹر رکھا گیا ہے جو اپنی مرضی سے اسکے ڈائیلاگ لکھتا ہے کیونکہ ترکی کی اصل ڈاکومنٹڈ تاریخ کہیں بھی میسر نہیں ہے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر سارے کتب خانے لوٹ لئے گئے تھے اور خصوصا ترک تاریخی مواد اور سلطنت عثمانیہ سے متعلق ایک ایک چیز چن چن کر اتاترک نے ختم کردی تھی ترکی سے ترک تاریخ سے متعلق تمام کتب کو جلوا دیا تھا اسلامی شعائر تک پر پابندی لگادی تھی اس نے اس لئے انکے پاس مستند تاریخ نہیں ہے سوائے چند تاریخی کرداروں کے کردار بھی وہ جنکی قبریں موجود ہیں یا جنکے متعلق سینہ بسینہ کچھ قصے محفوظ ہیں انکے ناموں کو لیکر انکے کردار بنا کر اپنی مرضی کا لکھ رہے ہیں صرف ایک قسط بیک وقت چار سے پانچ رائٹر لکھ رہے ہوتے ہیں ہر رائٹر کو ایک کردار دیا جاتا ہے کہہ اسکے متعلق لکھے
ترکی میں یہ فلاپ ہیں انکو کامیاب کرنے کے پیچھے انڈین اور پاکستانیوں کا ہاتھ ہے دونوں ویلی قومیں ہیں
ترکی کے یورپین لائف سٹائل میں ہم جیسے ویلوں جتنا وقت نہیں ہے کہہ 50 ،50 قسطوں کے چھ چھ سات سات سیزن دیکھتے پھریں خلیجی ممالک میں ویسے ان ترک ڈراموں کو نہیں دیکھا جاتا جس میں عثمانیہ کی بڑائی ہو اور عرب کو غدار اور کمزور دکھایا جائے اور عرب سلطنت عثمانیہ کو اپنے زوال کا سبب سمجھتے ہیں اور ان ڈراموں کو وہ اپنے عرب نیشنلزم کے خلاف سمجھتے ہیں ۔لے دے کر دنیا میں برصغیر کے مسلمان ہی بچتے ہیں جنکو اپنے اباء و اجداد اور ہیروز سے نفرت ہے پانچ ہزار سالہ قدیم متمدن تہذیب ہونے کے باوجود احساس کمتری کا شکار ہیں اور اپنے اجداد سے فرار کرنے کو تلے رہتے ہیں خود کو عربی النسل بناتے ہیں تاکہہ لوگ یہ نا کہیں کہہ انکے اجداد ہندوستانی کافر تھے اور یہ بھول جاتے ہیں کہہ ان عرب کے اجداد بھی بت پرست تھے جنکی اولاد بننے کی کوشش کرتے ہیں وہی عرب جو بیٹیوں کو دفن کرتے تھے ہندوستان ایک متمدن تہذیب جسکی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے اسکے وارث اس تاریخ سے ہی فرار چاہتے ہیں ذہنی احساس کمتری کا شکار ہیں اللہ نے نبی ہمیشہ وہاں بھیجے جس جگہ سب سے زیادہ معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ رہا ہے
اس لئے کبھی عرب ہیرو اور عربی النسل، کبھی ترک ہیرو اور ترکی النسل (حالانکہ برصغیر کے لوگ ان ترک قبائل سے چھ سو سال زائد عرصہ پہلے اسلام قبول کرچکے تھے اور حکومت بھی اسلامی قائم ہوچکی تھی اور ان ترک قبائل کی 12سو عیسوی سے پہلے کی تاریخ ہی نہیں ملتی سوائے خانہ بدوشی کے سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انکا بلڈ ،تہذیب زبان تک سب کچھ ملغوبہ بن گیا) کبھی افغانی ہیروز اور افغانی النسل بننے کی کوشش کرکے خود کو نیچ اور کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں پوری دنیا کے خطوں کی اقوام میں کسی قوم میں اتنا احساس کمتری اور اپنی تاریخ سے نفرت ،اپنی ثقافت کیلئے احساس شرمندگی نہیں پایا جاتا جتنا اس خطے کے لوگوں خصوصا اہل پنجاب میں پایا جاتا ہے باقی سب اپنی تاریخ اپنی ثقافت کیلئے جان تک دے دینے کو تیار رہتے ہیں اور دوسری طرف پانچ ہزار سال پرانی تہذیب اور دنیا کی بہترین ثقافت کے امین دو سو یا چھ سو سالہ تہذیب کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہیں چھ ہزار سال کی تاریخ میں پنجاب مصر کے بعد دنیا کا سب سے بہترین زرخیز خطہ رہا ہے اسی خطے کو انگریز نے سونے کی چڑیا کہا اسی پنجاب کے زرخیز خطے کی اجناس کیلئے مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے حملے کرکے قبضہ کرنے کی کوششیں کیں ورنہ دوسری معدنیات انکے پاس بھی تھیں۔سب سے زیادہ اس خطہ پنجاب پر حملے افغان قبائل نے کئے جب انکے پاس اجناس ختم ہونے لگتے پنجاب پر حملہ کردیتے، آج افغانیوں کی نفرت پاکستان سے اسی وجہ سے ہے پاکستان بننے کے بعد پنجاب میں انکی من مانیاں ختم ہوگئیں اور سینکڑوں سال سے انکے پیٹ پالنے والی سونے چڑیا انکی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔
اور دوسرے صوبے جو بار بار پنجاب کو طعنہ دیتے ہیں کہ پپنجاب انکے وسائل لوٹ گیا ہے ان سے یہی کہونگا اپنی اور پنجاب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ سامنے لائیں پنجاب آپکو پانچ ہزار سال میں ہر لمحے پرامن، متمدن زرعی دولت سے مالا مال اور امیر ترین خطہ ملے گا۔آپ کے وسائل پر قابض اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے آپکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ آپ کے اکابر جنکے سامنے آپکی بولتی بند رہتی ہے آپ نے کبھی انسے سوال کیا کہہ وہ اور انکی نسلیں ارب پتی، تعلیم یافتہ اور ہر سہولت سے بہرہ مند کیسے بن گئیں بس ایک پنجاب کی نفرت ڈال کر آپکو اس طرف لگا کر اپنی نسلیں سنوار لیں۔ کبھی پنجاب کی تاریخ پڑھیے گا۔پہلے تقسیم ہند کے نام پر پنجاب کو تقسیم در تقسیم کرکے چار صوبے بنا دئیے گئے اور اب بھی نفرت پنجاب سے، پنجاب کی زرخیز زمینوں نے ہزاروں سال سے اپنوں کی بجائے غیروں کا زیادہ پیٹ پالا اور بدلے میں نفرت ملی ڈریں اس وقت سے جب کٹے پھٹے پنجاب کی آنے والی نسلوں نے بھی اکٹھا ہوکر اپنے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کرلی اور پنجاب کی زمینوں نے گالی اور نفرت کا جواب دینا شروع کردیا اس لئے پنجاب اور اسکی سرزمین کی برداشت نا آزمائیں اور ہزاروں سال سے پرامن اور اپنے کام سے کام رکھنے والے خطے کو اپنے کام سے کام رکھنے دیں۔
واپس کریں
محمد صفان صفدر کے دیگرکالم اور مضامین