ملک امتیاز
میری پیدائش اندرون سندھ کے اس علاقہ کی ہے جہاں بچپن کے دور میں کسی کی موت کا سن کر لوگ سکتے میں چلے جاتے تھے۔۔ لمبی تمثیل میں جانے کے بجائے اتنا کہے دیتا ہوں اب وہ لوگ اس دھرتی پر موجود نہیں ہیں۔۔ میں نے وزیر اعظم شوکت عزیز کو سندھڑی ائیرپورٹ پر اپنی بنی پریزنٹشن دینی تھی مگر اسے یوز میرے باس نے کیا۔۔ ارباب غلام رحیم سی ایم سندھ کو بھی میری بنی محنت کو کیش کیا گیا۔۔ میں دونوں جگہ موجود تھا مگر میری انگلیاں صرف لیپ ٹاپ پر تھی۔۔ میں نے مغربی جرمنی کی بون پارلیمنٹ میں اپنا پیپر پڑھا اسکے بعد 2009 میں برلن میں بھی۔۔ اب آجاتے ہیں اصل بات کی طرف۔۔۔ پاکستان کی ہائی پروفیل بیوروکریسی کے ساتھ بے شک چند گھنٹے کام کا موقع ملا ۔۔ انٹرنشیل لیول پر بھی مشاہدے کیے۔۔ کل ملا کر اتنا کہوں گا۔۔ کہ آپ علم بشریات یعنی اینتھروپولی کی تھیوری پڑھ لیں مگر پریکٹکل کے لیے میری طرح کچڑ، گٹر کے پانیوں کو کراس کرکے پاوں کی انگلیاں گلا کر ہفتوں سڑک کنارے پڑے بنچوں پر رات کے کچھ گھنٹے گزارنا آپ کے بس میں نہیں نہ اس مرحلے کا موقع کبھی آپکو ملا ہوگا۔
لوگوں کو متاثر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے بڑی بڑی جابز پر بیٹھے اور آسودہ لوگ بہت جلدی متاثر ہوجاتے ہیں، مجھے نہیں معلوم منٹو یا جان ایلیاء نے کہا تھا کہ میں نے متاثر ہونا چھوڑ دیا ہے اور میں نے عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے کیونکہ میں ہر وقت منکر نیکر بن کو سوچتا اور چیزوں کا تجزیہ کرتا ہوں۔۔ میرے نزدیک سب سے بڑی شے فوک وذڈم ہے لاکھ علوم پڑھ لیں اگر آپ دھرتی پر گھومے پھرے نہیں گراس روٹ لیول پر دھکے نہیں کھائے تو آپکو تھوری کی ڈھیر ساری مبارکبادیں۔ پاکستان میں میرے پاس گاڑی تھی اور ضرورت کے مطابق پیسہ بھی تھا۔۔ میں سخت گرمی میں پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں بیٹھ کر گھنٹوں کے سفر پر خوام خواہ نکل جایا کرتا تھا گاڑی کی سیٹیں اور کھڑکیوں کی ٹوٹی تیز دھار چادروں سے میرے کپڑے الجھ کر پھٹ جایا کرتے تھے۔۔
میں کراچی شہرکے ان گلیوں اور بازاروں میں گھوما کرتا تھا جو کیوبا کی طرز پر اپنی پرانی تاریخ کے ساتھ زندھ تھیں۔۔۔ کبھی کراچی کینٹ اسٹشین پل پر جو پیدل چلنے والوں کا پل ہے سے گزر کر ریلوے اسٹیشن کے مغرب کی طرف چلے جائیں۔۔۔ بڑی عمر کے لوگوں سے دال چاول، پان یا کچھ بھی خریدنے کے بہانے ان کے پاس بیٹھ کر انہیں شہہ دیا کرتا تھا تاکہ ان کی گزری زندگی اور حالیہ دور کیساتھ ساتھ ان کے کیا تجربات اور باتیں ہیں وہ سن کر نیا سیکھ سکھوں، ان کے دور اور باتوں کو اپنی طبیعت سے نہ صرف ہم آہنگ کرسکوں بلکہ اپنی روح کو انکے اچھے خیالات کے مطابق پرزو کرسکو یا خود کو فکری طور پر ڈھال سکوں۔۔ ابو کی یاد آگئی یار۔۔۔ کیا کمال کا ہیرا بندہ تھا ابو کی باتوں اور خیالات کی وجہ سے یہ ایڈونچر کیا کرتا تھا۔۔
ایک لیڈی ہیں امریکہ میں جاب کرتی ہیں بچوں، خواتین اور سیکس بارے لکھتی ہیں بڑے بڑے لوگ ان کی باتوں سے متاثر ہیں دیوانے ہیں۔۔ یقین جانیں آپ شہر کی کسی بھی پرانی انپڑھ طوائف کے پاس بیٹھ جائیں وہ آپ کو اوپر مذکورہ خاتون سے بھی بہتر زندگی کے تلخ حقائق بارے آگاہی دے دیں گی۔۔ میں آدھا درجن طوائفوں کا انٹرویو پیسے دے کر چکا ہوں۔ گھوما پھرا کر سب سے بڑی چیز جڑت ہے کہ آپ گراس روٹ لیول پر لوگوں سے کتنے جڑے ہوئے ہیں؟ تھیوری پڑھ لیں مگر گراس روٹ لیول پراگر آپ کا مشاہدہ نہیں تو کتابی باتوں کا ایمپلینٹ صفر رہ جاتا ہے۔ میری Save the Children USA جاب تھی انڈین بارڈر کا علاقہ تھا اچھڑو تھر۔۔ ایک گول مٹول سی 25 سالہ ہندو لڑکی جو انتہائی خوبصورت تھی نام تھا نوری۔۔ کوئی میک اپ نہیں بس وہی دیہاتی لڑکی تانبڑہ کلر ایک وڈیرے کے بیٹے کے ساتھ ہمارے فیلڈ کلنک پر آئی وڈیرے کا بیٹا جو ٹین ایج تھا۔۔۔ کہتا یہ حاملہ ہوگی ہے اس کی ڈیٹ نہیں آئی گولیاں دیں۔۔ یا کوئی حل بتائیں۔۔؟
مجھے اس کی مسکراہٹ اور بے پروائی ابھی تک یاد ہے۔۔ میں اس کے گاوں کئی بار جاچکا تھا۔۔۔ اسے ہر مرتبہ دیکھا بھی۔۔ نوری کا کیس اس لیے بتارہا ہوں یہاں نہ چائلڈ اور وومین پروٹیکشن چلے گا نہ آپ کی تھیوری قابل عمل ٹہرے گی۔۔ کیوں؟ میں نوری کے گھر اگلے دن وزٹ پر چلے گیا ایک دوست وکیل سے بات کی کہتا لڑکی سے بات کرو میں اس کیس کو ٹیک اپ کروں گا۔۔ نوری سے بات کی تو مجھے ماروڑی زبان میں ہنستے ہوئے کہتی صاحب کبھی فاقے دیکھے ہیں؟
واپس کریں
ملک امتیاز کے دیگرکالم اور مضامین