دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اپنی بات کیجئے، اپنی کہانی بیان کریں!
ضیاالدین یوسف زئی
ضیاالدین یوسف زئی
جب سے ہوش سنبھالا ہے، ساری عمر ایک ہی تقریر کرتے آئے ہیں اور ایک ہی تقریر سنتے آئے ہیں۔ بسم اللہ اور درود شریف پڑھنے کے بعد موضوعِ زیر بحث کا اعلان۔ موضوع کے حق میں قرآنِ پاک کی آیاتِ کریمہ۔ احادیث شریف کے حوالے۔ مشاہیر اسلام اور قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات اور گاہے بہ گاہے علامہ اقبال کے لہو گرمانے والے اشعار۔ اگر کوئی قدرے جدیدیت اور لبرل ہونے کی شوخی دکھانا چاہتا ہو تو کبھی کبھار اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھنے والے سقراط اور بقراط کے اقوال اور یا شکسپیئر کے ایسے کلمات بھی تقریر میں شامل کرلیتے ہیں جو شریعت کے منافی نہ ہوں۔ باقی آپ بلا تعصب غور فرمائیں تو محراب و منبر سے لے کر اسکولوں، مدرسوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں، جلسوں، پارلیمنٹ کی بیشتر تقریروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز تک ایک ہی اسلوب چلتا ہے اور ہر کوئی ایک ہی مخصوص بیانیہ پڑھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کوئی آہستہ بولتا ہے، کوئی ناک سڑکتے ہوئے رو رو کے بولتا ہے اور کوئی باذوق گا گا کے بولتا ہے۔ باقی سب ایک ہی بولی بولتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی سعید رمضان شانگلہ کے ایک دور افتادہ گاؤں سیوڑ کے پرائمری اسکول میں استاد تھے۔ ان کے شاگردوں میں ایک لڑکا دماغی طور پر بیمار اور بھولا بھالا تھا۔ پڑھائی لکھائی میں بہت کمزور تھا۔ کئی سال اسکول میں پڑھنے کے باوجود وہ صرف ایک کا ہندسہ لکھ سکتا تھا۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ ایک دن اس نے اپنی تختی پر اوّل سے آخر تک بہت ساری عمودی لکیریں کھینچ کر میرے بھائی کو اونچی آواز سے مخاطب کرکے کہا: ’’استاد صیب اومی لیکو ٹول ایک ایک گیارہ دی‘‘۔ استاد صاحب لکھ دیا، سب ایک ایک گیارہ ہیں۔ بس کچھ ایسی ہی صورتِ حال وطنِ عزیز میں فکری جمود کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان تمام تقریروں میں قرآنِ پاک کی اُن آیتوں کا بھی بار بار حوالہ دیا جاتا ہے جن میں انسانوں کو غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً اولم یتفکرون فی انفسھم…… افلا تعقلون…… افلایتدبرون۔ لیکن عملاً فکری آزادی حرام ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کی یہ دعا کہ ’’ربِ زدنی علما‘‘ اسکولوں کے درو دیواروں کی زینت ہوتی ہے۔ لیکن اس تحقیق اور تنقید سے ہمیں بیر ہے جو علم کی بنیاد ہے۔ علم حرکت کا نام ہے اور ہمارے ہاں یخ بستہ جمودطاری ہے۔ کوئی مائی کا لا ل مروجہ بیانیہ (Set Pattern) سے ذرا ہٹ کر سوچے، لکھے یا بولے تو بقول مقبول عامر
فقیہہ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا!
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
اور ہاں آپ نے علامہ اقبال کے ایک شعر کو بھی بیشتر تقریروں میں بار بار سنا ہوگا کہ
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبال کے اس شعر پر اگر ہم عمل کرتے تو پاکستان میں ہر روز ایک نیا سائنسی ایجاد ظہور میں آتا اور نت نئے معاشی منصوبے بنتے۔ لیکن میدانِ فکر و عمل میں ہم غالب کے پیروکار واقع ہوئے ہیں۔
صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
میں سوچتا ہوں تو مغرب کی ترقی اور خوشحالی کی ایک بنیادی وجہ یہاں کی فکری آزادی ہے۔ یہاں تقریریں کم اور کہانیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہاں تقریروں کا رواج نہیں، کہانیوں کا کلچر ہے اور کہانیاں بھی کسی ماضی کے مزاروں کی نہیں، کسی پیاسے کوے اور لالچی کتے کی نہیں بلکہ اپنی کہانی، آپ کی کہانی، آج کی کہانی۔
آپ سوچیں گے کہ تقریر یا کہانی سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن میرے خیال میں بہت فرق پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں کی روایتی تقریروں میں آپ ہمیشہ دوسروں کا حوالہ دیتے ہیں۔ دوسرے نابغہ مشاہیر اور دانش وروں کی عقل و دانش کو سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ آپ خود بہت کم سوچتے ہیں بلکہ آپ کا دماغ کمپیوٹر کی چیپ کی طرح صرف ڈیٹا محفوظ کرتا ہے اور پھر آپ جتنا زیادہ ڈیٹا شیئر کرتے ہیں، آپ اتنے ہی بڑے عالم اور سکالر کہلاتے ہیں۔ لیکن کہانی آپ کی اپنی اہم ہوتی ہے کیوں کہ آپ خود بہت اہم ہیں۔ آپ اس دنیا میں پہلی اور آخری بار پیدا ہوئے ہیں۔ آپ اپنے طور پر یکتا ہیں۔ اس لیے آپ کی سوچ اور آپ کی تخلیقیت کی بہت اہمیت ہے۔ آپ پہ کیا گزری ہے یا گزرتی ہے، آپ کا ماحول کیسا ہے اور آپ اس کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اس دنیا کو سب کے لیے ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے کیا سوچتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کی فکر کی آزادی اور آپ کی اپنی کہانی ناگزیر ہے۔
میں نے زندگی میں ’’فصاحت لیوا‘‘ لکنت کے باوجود سیکڑوں تقاریر کی ہیں لیکن میری سب سے مقبول تقریر میری Ted Talk کی ہے۔ یہ تقریر میں نے کینیڈا کے خوب صورت شہر وینکور میں کی تھی۔ تقریر سے ایک دن پہلے جب میں نے Ted Talk کے ڈائریکٹر کریس اینڈرسن کے سامنے ریہرسل کی تو انھوں نے میری تقریر میں دو چیزوں کی اصلاح کی۔ ایک یہ کہ میں گفت گو کے انداز میں باوقار طریقے سے اپنی کہانی سناؤں۔ اس نے کہا ’’آپ کسی تحریر چوک میں کھڑے ہوکر کوئی انقلاب نہیں برپا کررہے ہیں۔ زیادہ اونچا بولنے اور جذباتی ہونے سے گریز کریں۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ ’’شروع میں آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح اور آخر میں گاندھی جی کے جو خوب صورت اقوال شامل کیے ہیں، ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ سامعین آپ کو سننا چاہتے ہیں، لوگ ان دونوں نامی گرامی شخصیات کے اقوال خود بھی گوگل میں سرچ کرسکتے ہیں۔‘‘
میں نئی نسل کے نوجوان بچوں اور بچیوں کو یہی کہوں گا کہ فنِ خطابت سیکھنے کے لیے رٹی رٹائی تقریر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کچھ کرنے اور کچھ بننے کے لیے آج کے بعد اپنی کہانی پر توجہ دیں۔ اپنی کہانی کے ذریعے فکر کے نئے دریچے وا کیجئے کیوں کہ آپ کے پاس بھی ایک عدد خوب صورت دماغ ہے اور آپ بھی بہت اہم ہیں۔
واپس کریں